حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی/ انقلابی اسلامی ایران کی 44 ویں سالگرہ کے موقع پر ایران کلچر ہاؤس میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں علماء اور مختلف مذہبی رہنماؤں نے بانی انقلاب امام خمینیؒ کی مثالی شخصیت اور ان کی رہنمائی میں ایرانی قوم کی جدوجہد کو سلام کرتے ہوئے موجودہ وقت کے ایران کوعالم اسلام کے لئے نمونہ عمل قراردیا۔
تقریب کا آغاز سید حسن ’اصل نژاد‘ نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ ایران کےقومی ترانہ کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغازہوا۔ ایران کلچرہاؤس کے سبزہ زار پرایک بڑے ہجوم کو خطاب کرتے ہوئے ہندوستان میں ایران کے سفیر ڈاکٹر ایرج الہٰی نے ایران کے خلاف استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے انقلاب کے اوائل ایام سے ہی کئی قسم کے فتنے اورنعرے بلند ہوئے ۔آپ جان لیں کہ ہم پہلے کی طرح آج بھی محاذ جنگ پرہیں۔
سفیر ایران نے کہا کہ انقلاب ایران کو محفوظ رکھنے کی کاوشیں ابھی بھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ انقلاب کے اوائل ایام سے ہی دشمنوں کی کاوش یہ ہے کہ کولڈ وار ،پالیسیز، نظریات اور اسلحوں کے ذریعہ ایران کو کمزور کیا جائے۔ اس طرح آج بھی ایران کئی محاذ جنگ پر ہے۔ ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری تھی کہ ملک میں تقسیم اور بغاوت کی سازش کے ساتھ ملک پر تھوپی گئی جنگ کا مقابلہ کرے۔
ڈاکٹر ایرج الہٰی نے کہا کہ انقلاب کے بعد ایران کی نئی حکومت کے سامنے بہت سارے چیلنجز تھے مگر یہ کہ قرآن کریم کا جو فرمان ہے اس کی روے سے کہ چراغ خدا بجھنے والانہیں ہے۔ اب اقتصادی پابندیوں کا دورشروع ہوگیا ہے۔ انقلاب سے لیکر آج تک ایران کواس قسم کے شدید اقتصادی محاصروں کا سامنا ہے۔ اقتصادی پابندیاں وہی محسوس کرسکتے ہیں جنہیں اس کا سامنا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ عالمی برادری سے نہ کچھ خرید سکتے ہیں اور نہ ہی بیچ سکتے ہیں۔ آپ میڈیکل سرنج تک نہیں خرید سکتے،ملک کی بنیادی ضروریات کوفراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں ملک کے حکومتی سربراہوں کی ذمہ داری تھی کہ ملک کو چلائیں اوراب بھی یہ صورتحال ویسے ہی جاری ہے۔
ڈاکٹرایرج الہٰی نے کہا کہ ہمارا انقلاب ایک ویلیو بیس انقلاب تھا جس میں اقدار کی پاسداری کی گئی ہے۔انقلاب کے فوری بعد انہیں اقدار کو پامال کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں جب دشمنوں نے دیکھا کہ اس ملک کے جوانوں کو انقلاب سے دور نہیں کرپا رہے ہیں تو انہوں نے ان جوانوں کے چہروں کو ہی خراب کرنا شروع کردیا۔وہ چاہتے ہیں کہ عالمی سطح پرایران کا چہرہ مخدوش کرکے پیش کیا جائے۔سفیرایران نے کہا کہ دشمنوں کے ذریعہ شروع کی گئی کمبائنڈ جنگ میں بھی انقلاب اسلامی کی رہنمائی میں ایران فاتح بن کرنکلے گا۔
اس سے پہلے ایران کلچرہاؤس کے کلچرل کونسلر ڈاکٹر محمدعلی ربانی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ انقلاب اسلامی ایران گزشتہ صدیوں میں ہونے والے دنیا کے اہم سیاجی اورسماجی واقعات میں سے ایک واقعہ ہے جس نے دنیا کو متاثر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوں تو دنیا میں کئی بڑے اوراہم واقعات رونما ہوئے ہیں مگر ایران کے انقلاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا دورانیہ بہت کم تھا لیکن دنیا کے تمام انقلابات کے مقابلے اسلامی انقلاب میں ایران کی پریشان قوم کو بھاری قیمت چکانی پڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی کوامام خمینیؒ کی قیادت میں انفرادی اور امتیازی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ربانی نے کہا کہ انقلاب اسلامی کو انفرادیت حاصل ہے جس میں اس کی لیڈرشپ اور ر ہبری اہم ہے کیونکہ دنیا میں جتنے انقلاب آئے ہیں ان میں عام طور پر ان کے رہبر ہوتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی مخصوص نظریئے سے متاثر ہوتے ہیں مگر انقلاب اسلامی کا قائد اور پیشوا انہیں عوام میں سے ہے۔
ڈاکٹر ربانی نے کہا کہ عام طور پر دنیا میں جو انقلاب آتے ہیں اور سماجی یاسیاسی تبدیلی ہوتی ہے اس میں کسی ملک کی ہی قوم کا مخصوص طبقہ کسی وجہ سے انقلاب کرتا ہے یا اس کی رہنمائی کرتا ہے مگرایران میں پوری طرح سے ملک کی اکثریت رنگ،نسل اورمذہبی تفریق اورامتیاز کے بغیر پوری قوم نے اس آواز پر لبیک کہا جو امام خمینیؒ نے اٹھائی تھی اورپوری قوم نے ان کا ساتھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کا انقلاب تہذیبی اور تمدنی انقلاب ہے اوریہ ایسا انقلا ب ہے جس نے اپنے آپ کو اس ملک کے جغرافیے تک محدود نہیں کیا بلکہ حقوق انسانی کا مطالبہ کرتے ہوئے پوری دنیا میں بشریت کے لئے عدالت و انصاف کو بلند کیا ہے۔ ہندوستان اور ایران کے انقلاب میں کے مشترکات کا ذکرکرتے ہوئی ڈاکٹر ربانی نے کہا کہ دونوں ملکوں کی جوقیادت ہے وہ انتہائی کرشمائی شخصیتوں کی مالک ہے جنہیں عوام کی بے پناہ حمایت حاصل ہے۔ یہی وہ قدرمشترک ہے جوہندوستان اورایران کے عوامی انقلاب میں دیکھا جاسکتا ہے۔
جامعہ ملیہ اسکول میں عربک ٹیچر ڈاکٹرمحمود حسن قاسمی نے اپنے پُرمغز خطاب میں انقلاب اسلامی کی بنیادی اساس کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں نظریات کی لڑائی ہے اورجب آپ کا نظریہ پختہ ہوتا ہے تو آپ کو کوئی ہٹانہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی انقلاب نے دنیا کو اسلامی اہمیت اور حقانیت کا سبق سکھایا ہے۔
ڈاکٹر قاسمی نے کہا کہ آج دنیا کی مسلم ورلڈ میں چر چاہے کہ اسلامک ورلڈ اوراسلامی مرکزکیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مکہ مدینہ ہر ایمان والے کے ایمان کا حصہ ہے مگرعرب دنیا آج غیروں کو اپنا آقا سمجھے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے بچوں کے رونے کی آوازان کو نہیں پہنچتی، صرف ایک طاقت ہے اور وہ ایران ہے جو باربار مظلومین کی آواز اٹھاتا ہے۔ جو بارباراقوام متحدہ میں حقوق انسانی کی آواز اٹھاتا ہے اوراسی وجہ سے دنیا بالخصوص مسلم ورلڈ کی امیدیں اس ملک اور اس کے حکمرانوں کی طرف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلامی مرکز تہران ہوسکتا ہے یا ملیشیا یا انڈونیشیا ہوسکتا ہے اس لئے کہ جہاں جہاں جمہوریت ہے ،اس ملک کی قیادت میں طاقت ہوتی ہے۔ اس کی بات میں دم ہوتا ہے ،اس کی پالیسیوں میں وزن ہوتا ہے اور جب جمہوریت ختم ہوتی ہے تو ظلم بڑھتا ہے اورملک بکھرجاتے ہیں۔
معروف دانشور ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ 1979 کا انقلاب میرے نزدیک کبھی بھی ایران کا انقلاب نہیں تھا، یہ اسلام کا انقلاب تھا تو یہ ایران کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ساری دنیا میں ایرانی سفارتخانہ یا ایران کا کلچرہاؤس اسلامی انقلاب کی سالگرہ منائے بلکہ یہ پورے عالم اسلام اور پورے عالم انسانیت کی ذمہ داری ہے کہ وہ 11 فروری کو انقلاب اسلامی کی ساگرہ منائے لیکن یہ فریضہ فرض کفایہ کے طور پر صرف ایران ادا کررہا ہے اس لئے ہم ایران کی حکومت کے،ان کے سفراء اور نمائندوں کے انتہائی شکر گزارہیں۔
ڈاکٹر رحمانی نے کہا کہ 1953 کے بعد کا ایران ، پہلوی کا ایران، وہاں آنے والی ثقافتی اورمعاشرتی ،تمدنی تبدیلیاں،مغربیت کا اظہار،اسلام سے انکار،اسلام سے بیزاری اور1970 کے بعد بھی ایران میں جو واقعات رونما ہوئے وہ اس بات کے متقاضی توتھے کہ ایران میں انقلاب بپا ہو،اس کی کوششیں بھی کی گئیں اور بہرحال انقلاب بپا ہوا لیکن اگر یہ انقلاب صرف ایران کا انقلاب ہوتا تو شاید دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کئی ممالک میں انقلاب ہوئے لیکن دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ تسلیم رحمانی نے کہا کہ امام خمینیؒ نے پہلے دن ہی یہ اعلان کردیا کہ یہ انقلاب لاشیعہ،لاسنیہ،اسلامیہ اسلامیہ!۔
ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ یہ وہ نعرہ تھا جس نے پنجہ یہود میں قید رگ گردن کو لرزا براندام کردیا اور آج تک باقی ہے۔ تقریب کو خطاب کرنے والوں میں امامیہ ہال دہلی کے امام جمعہ والجماعت مولانا ممتازعلی ،ہندوستان میں جامعة المصطفی(ایران)کے نمایندہ رضا شاکری بھی شامل تھے جبکہ محمد جواد ربانی، شمیم حیدرالہ آبادی اور امیر حیدر نانوتوی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔